الخميس، 30 نوفمبر 2017
15 Hadiths Against Going to Extremes | About Islam
15 Hadiths Against Going to Extremes | About Islam: Extremism, even in worship, is not good. In this part of Hadiths against extremism, we see how the Prophet on some COompanions who went to extremes.
تقلید كی حقیقت
تقلید كی حقیقت
تقلیدكی لغوی تعریف: عربی لغت میں تقليدكسی كی گردن میں طوق یا رسی ڈالنے كوكہتے ہیں ،علامہ شوكانی kارشاد الفحول صفحہ نمبر (441)میں فرماتے ہیں : «أما التقليد فاصله في اللغة مأخوذة من القلادة التي يقلد غيره بها, ومنه تقليد الهدي ,فكان المقلد جعل ذالك الحكم الذي قلدفيه المجتهد كالقلادةفى عنق من قلده ».”تقلید لغت میں گلے میں ڈالےجانے والےپٹے سے ماخوذ ہے،اورحج كی قربانی كے لئے متعین شدہ جانور كے گلے میں طوق ڈالنا بھی اسی سے ہے ،تقلید كو بھی اسی لئے تقلید كہتے ہیں كیونكہ اس میں مقلدجس حكم میں مجتہد كی تقلید كرتا ہے وہ حكم اپنے گلے میں طوق كی طرح ڈالتا ہے “۔
تقلیدكی شرعی تعریف:ملا علی قاری حنفیkنے اپنی مشہور كتاب ”شرح قصیدہ امالیہ “میں رقم طراز ہیں :
«والتقليد قبول قول الغير بلا دليل , فكانه لقبوله جعله قلادةفى عنقه ».”تقليدكسی كے قول یا فتوی كو بغیر دلیل اور ثبوت كے قبول كرنا ہے، گویا كہ اس مقلد نے اپنے امام كے قول كو قبول كرلینے كی وجہ سے اسے اپنے گلے كا پٹہ بنا لیا“۔(شرح قصیدہ امالیہ ،ص( 34)، مسلم الثبوت،ص (224)،تفسير قرطبي (2/211).
اس تعریف كے علاوہ علماء نے مختلف پیرائے سے اس كی تعریف تحریر فرمائی ہے ، طوالت كے ڈر سے ایك ہی تعریف پر اكتفاكیا گیا ہے ،ساری تعریفات كو سامنے ركھ كر اس كا خلاصہ پیش كرنے كی كوشش كی گئی ہے تاكہ آپ اس سلسلےمیں مكمل واقفیت حاصل كرسكیں۔
تقلید كی تعریف كا خلاصہ:
تمام تعریفات سے معلوم ہوا كہ تقلید كسی امام مجتہد یا فقیہ كی ایسی بات كو ماننے سے عبارت ہے جس پر كتاب و سنت كی كوئی دلیل نہ ہو سوائے اس كی رائے كے ، لہذا اس كے مد نظر گویا انسان اپنے آپ كو عمدا جاہل بنا كر اپنی گردن میں اس كی تقلید كا طوق ڈال لے ، اور پھر اس طوق كو دوسر ے كے ہاتھ میں بایں طور تھمادےكہ میں آپ كی ہر غلط و صحیح بات كا پابند ہوں ، اور اس كے مقابلے میں قرآن و حدیث میں تاویلیں كرنے كے لئے ہمہ وقت تیار رہوں گا۔
تقلید كی ابتدا
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی kفرماتے ہیں : «إعلم ان الناس كانواقبل المائةالرابعة غير مجمعين على التقليد الخالص لمذهب واحد ».”معلوم ہونا چاہئے كہ چوتھی صدی سے پہلے لوگ كسی خالص ایك مذہب پر متفق نہ تھے “۔(حجۃ اللہ البالغہ،ج1،ص(152)۔
علامہ ابن القیم الجوزی kفرماتے ہیں : «إنما حدثت هذه البدعة في القرن الرابع المذمومة على لسان رسول الله صلى الله عليه وسلم ».”یہ تقلید كی بدعت چوتھی صدی میں جاری ہوئی ،یہ وہ زمانہ ہے كہ جس كی مذمت رسول اللہ aسے ثابت ہوچكی ہے “۔(اعلام الموقعین،ج2،ص(185)۔
تقلیدكی لغوی تعریف: عربی لغت میں تقليدكسی كی گردن میں طوق یا رسی ڈالنے كوكہتے ہیں ،علامہ شوكانی kارشاد الفحول صفحہ نمبر (441)میں فرماتے ہیں : «أما التقليد فاصله في اللغة مأخوذة من القلادة التي يقلد غيره بها, ومنه تقليد الهدي ,فكان المقلد جعل ذالك الحكم الذي قلدفيه المجتهد كالقلادةفى عنق من قلده ».”تقلید لغت میں گلے میں ڈالےجانے والےپٹے سے ماخوذ ہے،اورحج كی قربانی كے لئے متعین شدہ جانور كے گلے میں طوق ڈالنا بھی اسی سے ہے ،تقلید كو بھی اسی لئے تقلید كہتے ہیں كیونكہ اس میں مقلدجس حكم میں مجتہد كی تقلید كرتا ہے وہ حكم اپنے گلے میں طوق كی طرح ڈالتا ہے “۔
تقلیدكی شرعی تعریف:ملا علی قاری حنفیkنے اپنی مشہور كتاب ”شرح قصیدہ امالیہ “میں رقم طراز ہیں :
«والتقليد قبول قول الغير بلا دليل , فكانه لقبوله جعله قلادةفى عنقه ».”تقليدكسی كے قول یا فتوی كو بغیر دلیل اور ثبوت كے قبول كرنا ہے، گویا كہ اس مقلد نے اپنے امام كے قول كو قبول كرلینے كی وجہ سے اسے اپنے گلے كا پٹہ بنا لیا“۔(شرح قصیدہ امالیہ ،ص( 34)، مسلم الثبوت،ص (224)،تفسير قرطبي (2/211).
اس تعریف كے علاوہ علماء نے مختلف پیرائے سے اس كی تعریف تحریر فرمائی ہے ، طوالت كے ڈر سے ایك ہی تعریف پر اكتفاكیا گیا ہے ،ساری تعریفات كو سامنے ركھ كر اس كا خلاصہ پیش كرنے كی كوشش كی گئی ہے تاكہ آپ اس سلسلےمیں مكمل واقفیت حاصل كرسكیں۔
تقلید كی تعریف كا خلاصہ:
تمام تعریفات سے معلوم ہوا كہ تقلید كسی امام مجتہد یا فقیہ كی ایسی بات كو ماننے سے عبارت ہے جس پر كتاب و سنت كی كوئی دلیل نہ ہو سوائے اس كی رائے كے ، لہذا اس كے مد نظر گویا انسان اپنے آپ كو عمدا جاہل بنا كر اپنی گردن میں اس كی تقلید كا طوق ڈال لے ، اور پھر اس طوق كو دوسر ے كے ہاتھ میں بایں طور تھمادےكہ میں آپ كی ہر غلط و صحیح بات كا پابند ہوں ، اور اس كے مقابلے میں قرآن و حدیث میں تاویلیں كرنے كے لئے ہمہ وقت تیار رہوں گا۔
تقلید كی ابتدا
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی kفرماتے ہیں : «إعلم ان الناس كانواقبل المائةالرابعة غير مجمعين على التقليد الخالص لمذهب واحد ».”معلوم ہونا چاہئے كہ چوتھی صدی سے پہلے لوگ كسی خالص ایك مذہب پر متفق نہ تھے “۔(حجۃ اللہ البالغہ،ج1،ص(152)۔
علامہ ابن القیم الجوزی kفرماتے ہیں : «إنما حدثت هذه البدعة في القرن الرابع المذمومة على لسان رسول الله صلى الله عليه وسلم ».”یہ تقلید كی بدعت چوتھی صدی میں جاری ہوئی ،یہ وہ زمانہ ہے كہ جس كی مذمت رسول اللہ aسے ثابت ہوچكی ہے “۔(اعلام الموقعین،ج2،ص(185)۔
تقليد كے اسباب
تقلید كے بہت سارے اسباب و وجوہات اہل علم نے بیان كیا ہے ، اور اس كی ترقی كے ادوار بھی بڑی تفصیل سے ذكر كیا ہے ، اور مذہبی دفاع میں تیاركردہ خودساختہ قواعد كو بھی بیان كیا ہےجس كے سہارے حدیث كو رد كرنے میں انہیں مدد ملتی ہے ،تقلید كے اسباب كے بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی kفرماتے ہیں :
تقلید كی اہم وجہ فقہاء كا آپس میں تزاحم ہے ، اور ان كا باہم جھگڑنا ہے ،چنانچہ جب فتوی دینے میں مقابلہ آرائی ہونے لگی ، اور جب كوئی فتوی دیتا تو اس پر اعتراض كیا جاتا اور اسے رد كردیا جاتا ،اور رجوع كرنے كے بجائے متقدمین میں سے كسی كی صراحت پر اس مسئلہ كی بحث جاكر رك جاتی ،اور وہی اس مسئلہ میں ان كا اصل قرارپاتا اس طرح تقلید پنپتی رہی ۔
دوسری ایك وجہ یہ تھی كہ قاضی لوگوں كو تقلید كا حكم دیتا ، كیونكہ جب اكثر وبیشتر قاضیوں نے ظلم كیا اور امانت داری سے كام نہ لیاتو ان كا وہ حكم عام لوگوں میں مقبول ہوتا جن پر عوام كو شك نہ ہوتا ، اور اس قبیل سے كچھ باتیں پہلے بھی كہی جاچكی ہوتیں ۔
ایك تیسری بڑی وجہ یہ بیان كی جاتی ہے كہ جاہل لوگ سردار بنے ، اور لوگوں نے ایسے بے علم لوگوں سے مسائل دریافت كئے جن كو حدیث اور تخریج حدیث كا علم نہ تھا ، جس كا مشاہدہ آپ متاخریں میں خود كررہے ہیں ،اور غیر مجتہد فقیہ كے نام سے موسوم ہوگئے،اور اسی وقت یہ لوگ تعصب پر جم گئے۔(حجۃ اللہ البالغہ،ج1،ص(153)۔
تقلید كی شرعی حیثیت
مروجہ تقلید اور اس كے گوناگوں نقصانات كے پیش نظر ، اور اہل علم كے عادلانہ و منصفانہ وضاحت كو سامنے ركھتے ہوئے قرآن و حدیث كی روشنی میں یہ بات بلا تردد كہی جاسكتی ہے كہ تقلید بدعت ومطلقاحرام ہے،عالم ہویا امی(ان پڑھ) ہو ،كسی كے لئے بھی تقلید جائز نہیں ، اور اس سے بچنا واجب اور ضروری ہے ،كیونكہ اللہ تعالی نے پوری امت كو كتاب اللہ اور سنت رسول اللہ كا پابند كیا ہے ،اور یہ تیسر ی صدی ہجری كے بعد معرض وجود میں آنے والی انتہائی قبیح بدعت ہے ، صحابہ كرام e، تابعین عظام اور تبع تابعین رحمہم اللہ كی نیك ہستیاں تقلید كی غلاظت سے پاك تھیں ،حالانكہ ان ادوار میں بھی ان پڑھ عوام بھی تھے ، اور ہر شخص مجتہد بھی نہ تھا ۔
اسلامی نقطہ نظر سے اگرتقلید واجب یا ضروری ہوتی تو اللہ رب العزت چوتھی صدی ہجری كے تقلید كو ضروری قرار دیتا ، اور نبی اكرم aاس كار خیر سے امت كے لئے خاموشی اختیار نہ كرتے بلكہ ارشاد فرماتے كہ بعد میں آنے والے لوگ علماء كی تقلید كریں ۔
تو جو لوگ تقلید كو واجب یا فرض سمجھتے ہیں یا تو وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں یا جان بوجھ كر معصوم عوام كو مغالطہ دینے كی قابل مذمت كوشش كررہے ہیں ،اور ان كے دلوں میں نفرت بدعت كی جگہ حب بدعت پیدا ہو گئی ہے ، اور ان كے دل تقلید كی بدعت كے اسیر بن چكے ہیں ،بھلا وہ چیز كیسے فرض یا واجب ہو سكتی ہے جس كا استعمال انسانوں كے لئے قرآن و حدیث نے توہین انسانیت قرار دیا ہے ۔
طالب دعا: ابو اسعد قطب محمد الاثری
https://www.facebook.com/Urdu.IslamHouse/
تقلید كے بہت سارے اسباب و وجوہات اہل علم نے بیان كیا ہے ، اور اس كی ترقی كے ادوار بھی بڑی تفصیل سے ذكر كیا ہے ، اور مذہبی دفاع میں تیاركردہ خودساختہ قواعد كو بھی بیان كیا ہےجس كے سہارے حدیث كو رد كرنے میں انہیں مدد ملتی ہے ،تقلید كے اسباب كے بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی kفرماتے ہیں :
تقلید كی اہم وجہ فقہاء كا آپس میں تزاحم ہے ، اور ان كا باہم جھگڑنا ہے ،چنانچہ جب فتوی دینے میں مقابلہ آرائی ہونے لگی ، اور جب كوئی فتوی دیتا تو اس پر اعتراض كیا جاتا اور اسے رد كردیا جاتا ،اور رجوع كرنے كے بجائے متقدمین میں سے كسی كی صراحت پر اس مسئلہ كی بحث جاكر رك جاتی ،اور وہی اس مسئلہ میں ان كا اصل قرارپاتا اس طرح تقلید پنپتی رہی ۔
دوسری ایك وجہ یہ تھی كہ قاضی لوگوں كو تقلید كا حكم دیتا ، كیونكہ جب اكثر وبیشتر قاضیوں نے ظلم كیا اور امانت داری سے كام نہ لیاتو ان كا وہ حكم عام لوگوں میں مقبول ہوتا جن پر عوام كو شك نہ ہوتا ، اور اس قبیل سے كچھ باتیں پہلے بھی كہی جاچكی ہوتیں ۔
ایك تیسری بڑی وجہ یہ بیان كی جاتی ہے كہ جاہل لوگ سردار بنے ، اور لوگوں نے ایسے بے علم لوگوں سے مسائل دریافت كئے جن كو حدیث اور تخریج حدیث كا علم نہ تھا ، جس كا مشاہدہ آپ متاخریں میں خود كررہے ہیں ،اور غیر مجتہد فقیہ كے نام سے موسوم ہوگئے،اور اسی وقت یہ لوگ تعصب پر جم گئے۔(حجۃ اللہ البالغہ،ج1،ص(153)۔
تقلید كی شرعی حیثیت
مروجہ تقلید اور اس كے گوناگوں نقصانات كے پیش نظر ، اور اہل علم كے عادلانہ و منصفانہ وضاحت كو سامنے ركھتے ہوئے قرآن و حدیث كی روشنی میں یہ بات بلا تردد كہی جاسكتی ہے كہ تقلید بدعت ومطلقاحرام ہے،عالم ہویا امی(ان پڑھ) ہو ،كسی كے لئے بھی تقلید جائز نہیں ، اور اس سے بچنا واجب اور ضروری ہے ،كیونكہ اللہ تعالی نے پوری امت كو كتاب اللہ اور سنت رسول اللہ كا پابند كیا ہے ،اور یہ تیسر ی صدی ہجری كے بعد معرض وجود میں آنے والی انتہائی قبیح بدعت ہے ، صحابہ كرام e، تابعین عظام اور تبع تابعین رحمہم اللہ كی نیك ہستیاں تقلید كی غلاظت سے پاك تھیں ،حالانكہ ان ادوار میں بھی ان پڑھ عوام بھی تھے ، اور ہر شخص مجتہد بھی نہ تھا ۔
اسلامی نقطہ نظر سے اگرتقلید واجب یا ضروری ہوتی تو اللہ رب العزت چوتھی صدی ہجری كے تقلید كو ضروری قرار دیتا ، اور نبی اكرم aاس كار خیر سے امت كے لئے خاموشی اختیار نہ كرتے بلكہ ارشاد فرماتے كہ بعد میں آنے والے لوگ علماء كی تقلید كریں ۔
تو جو لوگ تقلید كو واجب یا فرض سمجھتے ہیں یا تو وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں یا جان بوجھ كر معصوم عوام كو مغالطہ دینے كی قابل مذمت كوشش كررہے ہیں ،اور ان كے دلوں میں نفرت بدعت كی جگہ حب بدعت پیدا ہو گئی ہے ، اور ان كے دل تقلید كی بدعت كے اسیر بن چكے ہیں ،بھلا وہ چیز كیسے فرض یا واجب ہو سكتی ہے جس كا استعمال انسانوں كے لئے قرآن و حدیث نے توہین انسانیت قرار دیا ہے ۔
طالب دعا: ابو اسعد قطب محمد الاثری
https://www.facebook.com/Urdu.IslamHouse/
الأربعاء، 29 نوفمبر 2017
This Our Record speaks
ILoveAllaah.com مع Katy.
When the people have been given their books, it will be said to them:
“This Our Record speaks about you with truth. Verily, We were recording what you used to do (i.e. Our angels used to record your deeds)” - [al-Jaathiyah 45:29]
“Read your book. You yourself are sufficient as a reckoner against you this Day” - [al-Isra’ 17:14]
5 Muslim Inventions That Changed The World | About Islam
5 Muslim Inventions That Changed The World | About Islam: It was actually a Muslim man who invented a flying machine for the first time and flew with it! Here are 5 Muslim inventions that changed the world.
Please pray for them , they need your dua ....
تمت مشاركة منشور ISLAM and Science من قبل Koky Noor.
ISLAM and Science
There are big battles in those moments between the tyrant Bashar Assad's armies against the revolutionaries in the capital Damascus , Please pray for muslims , please pray that Allah end the suffering of our Syrian brothers and sisters ,
I Know that it is cold weather , but i kindly ask you to go make wudu (ablution) , pray 2 rakaats then make dua in your sujud for Syrian kids and women ,
Please pray for them , they need your dua ....
ANSWERING ATHEISM:
تمت مشاركة صورة Science & Faith من قبل Koky Noor.
Science & Faith مع Rahma Ally و9 آخرين.
Previous notes:
ANSWERING ATHEISM:
"THE REALITY"
"THE REALITY"
~TAG YOUR FRIENDS AND SHARE!~
The picture of life and the universe, which takes shape in our minds on accepting religion is a very beautiful and gladdening one. This, in itself, establishes the truth of religion and the falsity of anti-religious theories. It conforms to the noble ideas of man in the very same way, as the material universe is echoed in mathematical formulae. On the contrary, the picture of reality which forms inconsonance with an anti-religious philosophy is completely out of step with the human mind. On this point, J.W.N. Sullivan has made a very pertinent quotation from Bertrand Russell:
That man is the product of such causes which had no prevision of the end they were achieving; that his origin, his growth, his hopes and fears, his loves and beliefs, are but the outcome of accidental collocations of atoms; that no fire, no heroism, no intensity of thought and feeling can preserve an individual life beyond the grave; that all labours of the ages, all the devotion, all the inspiration, all the noon-day brightness of human genius, are destined to extinction in the vast death of the solar system. And that the whole temple of man’s achievement mustinevitably be buried beneath the debris of a universe in ruins. All these things, if not quite beyond dispute, are yet so nearly certain that no philosophy which rejects them can hope to stand.
This extract sums up the irreligious, materialistic school of thought. According to such thinking, our prospects in life are darkened by gloom and despair. The materialistic interpretation of life also dispenses with any definite criterion for the judgement of good and evil. It justifies the dropping of bombs on human beings, the use of flamethrowers and chemical warfare, to name but a few of the scourges of modern times. This is not considered outrageous, tyrannical or bestially aggressive. After all, human beings have to die one way or another. Religious thought, by contrast, affords a glowing ray of hope, giving to both life and death a joyous and meaningful radiance. In this way it fulfills our psychological needs. When a scientist propounds a theory, which is found to conform to mathematical formula, he is convinced that what he has discovered is a reality. Similarly, when religious concepts find a harmonious echo in the human psyche, this is a proof that this was the reality which human nature was in search of. It gives us such a sense of fulfillment that we are left with no real grounds for denying its truth. To quote the words of Earl Chester Rex, an American mathematician:
I use the accepted principle in science which governs the choice between two or more conflicting theories. According to this principle, the theory which explains all the pertinent facts in the simplest way is adopted.
This same principle was used, long ago, to decide between the Ptolemaic, or earthcentered theory and the Copernican theory which claims that the sun is the center of the solar system. The Ptolemaic theory was so involved and so much more complicated than the Copernican that the earth-centered idea was discarded.
I admit that this argument would not be regarded as foolproof by many. The concept of God and religion will never fit into the narrow frame of their materialistic minds. Yet their dissatisfaction is not really due to any lack of sound reasoning behind religion—of that I am satisfied. No, the actual reason for their disaffection is that their prejudiced minds are not prepared to accept religious reasoning. Sir James Jeans, at the end of his book, Mysterious Universe correctly remarked: ‘Our modern minds have a sort of bias in favour of the materialistic explanation of the facts’ (p. 189).
In his book, Witness, Whittacker Chambers tells of how he was watching his little daughter one day, when he found that he had unconsciously become aware of the shape of her ear. He thought to himself how impossible it was that such delicate convolutions could have come about by chance.
They could have been created only by premeditated design. But he pushed this thought out of his agnostic mind, because he realized that the next step in logical sequence would have to be: design presupposes God—a thesis he was not yet ready to accept. With reference to this incident, Thomas David Park, a research chemist, formerly Chairman of the Department of Chemistry, Stanford Research Institute, writes: ‘I have known many scientists among my professors and research colleagues, who have similar thoughts about observed facts in chemistry and physics.
‘Scientists’ of the ‘Modern’ age are agreed upon the theory of evolution. This concept is becoming dominant in all scientific fields. An enchanting idol of spontaneous evolution has been set up in place of God. If the truth were told, the very dogma of organic evolution, from which all of the evolutionary concepts have been borrowed, is nothing but a hypothesis without any evidence. But this is not all. Some scientists have openly confessed that if they believe in the concept of evolution, it is simply because they can find no other alternative. Sir Arthur Keith (1866-1955) said in 1953 that evolution was unproved and unprovable and that we believed in it only because the only alternative was special creation and that was unthinkable.
Scientists are thus agreed upon the validity of the evolution theory simply because, if they discard it, they will be left with no option but to believe in the concept of God.
I confess that it is beyond my power to satisfy those scholars whose bias, in favour of materialistic reasoning is so strong that they are unable to keep their minds open to self-evident facts. There is a particular reason for the bias, about which George Herbert Blount, an American physicist has this to say:
Conviction of the reasonableness of theism and the tenuousness of atheism usually in itself does not cause a man to accept practical theism. There seems to be an almost innate suspicion that the recognition of Deity will somehow rob one of freedom. To the Scholar, who cherishes intellectual liberty, any thought of abridged freedom is especially dreadful.
In much the same vein, the concept of prophethood has been described by Julian Huxley as an ‘intolerable demonstration of superiority’. That is, the acceptance of someone as a prophet implies his elevation to such a high status that his word becomes the word of God, giving him, in consequence, the right to impose his will on the people, the right to make people accept his word as law. But then that is what it means to be a prophet, and when man is the creature and not the Creator, he is in the position of being the humble slave of God, and not God, how can this situation be changed or avoided simply on the basis of concepts which are the result of ignorance or wishful thinking?
Cressy Morrison asks with reason in his book, Man Does not Stand Alone, ‘How much must man advance before he fully realises the existence of a Supreme Intelligence, grasps His goodness that we exist, assumes his full part in destiny and strives to live up to the highest code he is capable of understanding without attempting to analyse God’s motive, or describe His attributes?’
Things are as they are. We cannot change the hard reality: we simply have to acknowledge it, accept it, bow to it. Now, if we are not to adopt an ostrichlike attitude, our best course is to believe in actuality, rather than deny it. By denying the truth, it is man who loses. His denial of the truth in no way alters, harms, or diminishes it. The truth is the truth.
Previous notes:
UNDERSTANDING ATHEISM
https://www.facebook.com/media/set/…
https://www.facebook.com/media/set/…
MODERN SCIENCE
https://www.facebook.com/photo.php…
https://www.facebook.com/photo.php…
THE LIMIT OF SCIENCE
https://www.facebook.com/photo.php…
https://www.facebook.com/photo.php…
THE PSYCHOLOGICAL ARGUMENT
https://www.facebook.com/photo.php…
https://www.facebook.com/photo.php…
AGE OF IGNORANCE
https://www.facebook.com/photo.php…
https://www.facebook.com/photo.php…
THE HISTORY OF RELIGION
https://www.facebook.com/photo.php?fbid=10150293835164508
https://www.facebook.com/photo.php?fbid=10150293835164508
"THE HISTORY OF RELIGION - Based on the example of DEMOCRACY SySTEM"
https://www.facebook.com/photo.php?fbid=10150297039604508
https://www.facebook.com/photo.php?fbid=10150297039604508
THE EVOLUTIONARY METHOD
https://www.facebook.com/photo.php?fbid=10150299399054508
https://www.facebook.com/photo.php?fbid=10150299399054508
The best fasting after Ramadaan
تمت مشاركة منشور IslamicTube من قبل Koky Noor.
IslamicTube
Abu Hurayrah (may Allaah be pleased with him) said: The Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him) said:
“The best fasting after Ramadaan is the month of Allaah Muharram, and the best prayer after the obligatory prayer is prayer at night (tahajjud).”
(Narrated by Muslim, 1163).
Avail this opportunity in the short days of winter by keeping fasts and long nights by offering Tahajjud Prayer.
why Allah created human beings and this world.
تمت مشاركة منشور Dr. Bilal Philips من قبل Koky Noor.
Dr. Bilal PhilipsI had an informal discussion a few days ago with former Muslim from Chennai who had become an atheist and the first question he asked me was why Allah created human beings and this world. So, I suggested to him that, perhaps there was an even bigger question that he should ask, as the earth and its inhabitants are less than a speck in the galaxy, which is itself only a speck in the universe. I proposed that, instead, it would be better to ask why Allah created.
Dr Bilal
الاشتراك في:
الرسائل (Atom)