تقلید كی حقیقت
تقلیدكی لغوی تعریف: عربی لغت میں تقليدكسی كی گردن میں طوق یا رسی ڈالنے كوكہتے ہیں ،علامہ شوكانی kارشاد الفحول صفحہ نمبر (441)میں فرماتے ہیں : «أما التقليد فاصله في اللغة مأخوذة من القلادة التي يقلد غيره بها, ومنه تقليد الهدي ,فكان المقلد جعل ذالك الحكم الذي قلدفيه المجتهد كالقلادةفى عنق من قلده ».”تقلید لغت میں گلے میں ڈالےجانے والےپٹے سے ماخوذ ہے،اورحج كی قربانی كے لئے متعین شدہ جانور كے گلے میں طوق ڈالنا بھی اسی سے ہے ،تقلید كو بھی اسی لئے تقلید كہتے ہیں كیونكہ اس میں مقلدجس حكم میں مجتہد كی تقلید كرتا ہے وہ حكم اپنے گلے میں طوق كی طرح ڈالتا ہے “۔
تقلیدكی شرعی تعریف:ملا علی قاری حنفیkنے اپنی مشہور كتاب ”شرح قصیدہ امالیہ “میں رقم طراز ہیں :
«والتقليد قبول قول الغير بلا دليل , فكانه لقبوله جعله قلادةفى عنقه ».”تقليدكسی كے قول یا فتوی كو بغیر دلیل اور ثبوت كے قبول كرنا ہے، گویا كہ اس مقلد نے اپنے امام كے قول كو قبول كرلینے كی وجہ سے اسے اپنے گلے كا پٹہ بنا لیا“۔(شرح قصیدہ امالیہ ،ص( 34)، مسلم الثبوت،ص (224)،تفسير قرطبي (2/211).
اس تعریف كے علاوہ علماء نے مختلف پیرائے سے اس كی تعریف تحریر فرمائی ہے ، طوالت كے ڈر سے ایك ہی تعریف پر اكتفاكیا گیا ہے ،ساری تعریفات كو سامنے ركھ كر اس كا خلاصہ پیش كرنے كی كوشش كی گئی ہے تاكہ آپ اس سلسلےمیں مكمل واقفیت حاصل كرسكیں۔
تقلید كی تعریف كا خلاصہ:
تمام تعریفات سے معلوم ہوا كہ تقلید كسی امام مجتہد یا فقیہ كی ایسی بات كو ماننے سے عبارت ہے جس پر كتاب و سنت كی كوئی دلیل نہ ہو سوائے اس كی رائے كے ، لہذا اس كے مد نظر گویا انسان اپنے آپ كو عمدا جاہل بنا كر اپنی گردن میں اس كی تقلید كا طوق ڈال لے ، اور پھر اس طوق كو دوسر ے كے ہاتھ میں بایں طور تھمادےكہ میں آپ كی ہر غلط و صحیح بات كا پابند ہوں ، اور اس كے مقابلے میں قرآن و حدیث میں تاویلیں كرنے كے لئے ہمہ وقت تیار رہوں گا۔
تقلید كی ابتدا
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی kفرماتے ہیں : «إعلم ان الناس كانواقبل المائةالرابعة غير مجمعين على التقليد الخالص لمذهب واحد ».”معلوم ہونا چاہئے كہ چوتھی صدی سے پہلے لوگ كسی خالص ایك مذہب پر متفق نہ تھے “۔(حجۃ اللہ البالغہ،ج1،ص(152)۔
علامہ ابن القیم الجوزی kفرماتے ہیں : «إنما حدثت هذه البدعة في القرن الرابع المذمومة على لسان رسول الله صلى الله عليه وسلم ».”یہ تقلید كی بدعت چوتھی صدی میں جاری ہوئی ،یہ وہ زمانہ ہے كہ جس كی مذمت رسول اللہ aسے ثابت ہوچكی ہے “۔(اعلام الموقعین،ج2،ص(185)۔
تقلیدكی لغوی تعریف: عربی لغت میں تقليدكسی كی گردن میں طوق یا رسی ڈالنے كوكہتے ہیں ،علامہ شوكانی kارشاد الفحول صفحہ نمبر (441)میں فرماتے ہیں : «أما التقليد فاصله في اللغة مأخوذة من القلادة التي يقلد غيره بها, ومنه تقليد الهدي ,فكان المقلد جعل ذالك الحكم الذي قلدفيه المجتهد كالقلادةفى عنق من قلده ».”تقلید لغت میں گلے میں ڈالےجانے والےپٹے سے ماخوذ ہے،اورحج كی قربانی كے لئے متعین شدہ جانور كے گلے میں طوق ڈالنا بھی اسی سے ہے ،تقلید كو بھی اسی لئے تقلید كہتے ہیں كیونكہ اس میں مقلدجس حكم میں مجتہد كی تقلید كرتا ہے وہ حكم اپنے گلے میں طوق كی طرح ڈالتا ہے “۔
تقلیدكی شرعی تعریف:ملا علی قاری حنفیkنے اپنی مشہور كتاب ”شرح قصیدہ امالیہ “میں رقم طراز ہیں :
«والتقليد قبول قول الغير بلا دليل , فكانه لقبوله جعله قلادةفى عنقه ».”تقليدكسی كے قول یا فتوی كو بغیر دلیل اور ثبوت كے قبول كرنا ہے، گویا كہ اس مقلد نے اپنے امام كے قول كو قبول كرلینے كی وجہ سے اسے اپنے گلے كا پٹہ بنا لیا“۔(شرح قصیدہ امالیہ ،ص( 34)، مسلم الثبوت،ص (224)،تفسير قرطبي (2/211).
اس تعریف كے علاوہ علماء نے مختلف پیرائے سے اس كی تعریف تحریر فرمائی ہے ، طوالت كے ڈر سے ایك ہی تعریف پر اكتفاكیا گیا ہے ،ساری تعریفات كو سامنے ركھ كر اس كا خلاصہ پیش كرنے كی كوشش كی گئی ہے تاكہ آپ اس سلسلےمیں مكمل واقفیت حاصل كرسكیں۔
تقلید كی تعریف كا خلاصہ:
تمام تعریفات سے معلوم ہوا كہ تقلید كسی امام مجتہد یا فقیہ كی ایسی بات كو ماننے سے عبارت ہے جس پر كتاب و سنت كی كوئی دلیل نہ ہو سوائے اس كی رائے كے ، لہذا اس كے مد نظر گویا انسان اپنے آپ كو عمدا جاہل بنا كر اپنی گردن میں اس كی تقلید كا طوق ڈال لے ، اور پھر اس طوق كو دوسر ے كے ہاتھ میں بایں طور تھمادےكہ میں آپ كی ہر غلط و صحیح بات كا پابند ہوں ، اور اس كے مقابلے میں قرآن و حدیث میں تاویلیں كرنے كے لئے ہمہ وقت تیار رہوں گا۔
تقلید كی ابتدا
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی kفرماتے ہیں : «إعلم ان الناس كانواقبل المائةالرابعة غير مجمعين على التقليد الخالص لمذهب واحد ».”معلوم ہونا چاہئے كہ چوتھی صدی سے پہلے لوگ كسی خالص ایك مذہب پر متفق نہ تھے “۔(حجۃ اللہ البالغہ،ج1،ص(152)۔
علامہ ابن القیم الجوزی kفرماتے ہیں : «إنما حدثت هذه البدعة في القرن الرابع المذمومة على لسان رسول الله صلى الله عليه وسلم ».”یہ تقلید كی بدعت چوتھی صدی میں جاری ہوئی ،یہ وہ زمانہ ہے كہ جس كی مذمت رسول اللہ aسے ثابت ہوچكی ہے “۔(اعلام الموقعین،ج2،ص(185)۔
تقليد كے اسباب
تقلید كے بہت سارے اسباب و وجوہات اہل علم نے بیان كیا ہے ، اور اس كی ترقی كے ادوار بھی بڑی تفصیل سے ذكر كیا ہے ، اور مذہبی دفاع میں تیاركردہ خودساختہ قواعد كو بھی بیان كیا ہےجس كے سہارے حدیث كو رد كرنے میں انہیں مدد ملتی ہے ،تقلید كے اسباب كے بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی kفرماتے ہیں :
تقلید كی اہم وجہ فقہاء كا آپس میں تزاحم ہے ، اور ان كا باہم جھگڑنا ہے ،چنانچہ جب فتوی دینے میں مقابلہ آرائی ہونے لگی ، اور جب كوئی فتوی دیتا تو اس پر اعتراض كیا جاتا اور اسے رد كردیا جاتا ،اور رجوع كرنے كے بجائے متقدمین میں سے كسی كی صراحت پر اس مسئلہ كی بحث جاكر رك جاتی ،اور وہی اس مسئلہ میں ان كا اصل قرارپاتا اس طرح تقلید پنپتی رہی ۔
دوسری ایك وجہ یہ تھی كہ قاضی لوگوں كو تقلید كا حكم دیتا ، كیونكہ جب اكثر وبیشتر قاضیوں نے ظلم كیا اور امانت داری سے كام نہ لیاتو ان كا وہ حكم عام لوگوں میں مقبول ہوتا جن پر عوام كو شك نہ ہوتا ، اور اس قبیل سے كچھ باتیں پہلے بھی كہی جاچكی ہوتیں ۔
ایك تیسری بڑی وجہ یہ بیان كی جاتی ہے كہ جاہل لوگ سردار بنے ، اور لوگوں نے ایسے بے علم لوگوں سے مسائل دریافت كئے جن كو حدیث اور تخریج حدیث كا علم نہ تھا ، جس كا مشاہدہ آپ متاخریں میں خود كررہے ہیں ،اور غیر مجتہد فقیہ كے نام سے موسوم ہوگئے،اور اسی وقت یہ لوگ تعصب پر جم گئے۔(حجۃ اللہ البالغہ،ج1،ص(153)۔
تقلید كی شرعی حیثیت
مروجہ تقلید اور اس كے گوناگوں نقصانات كے پیش نظر ، اور اہل علم كے عادلانہ و منصفانہ وضاحت كو سامنے ركھتے ہوئے قرآن و حدیث كی روشنی میں یہ بات بلا تردد كہی جاسكتی ہے كہ تقلید بدعت ومطلقاحرام ہے،عالم ہویا امی(ان پڑھ) ہو ،كسی كے لئے بھی تقلید جائز نہیں ، اور اس سے بچنا واجب اور ضروری ہے ،كیونكہ اللہ تعالی نے پوری امت كو كتاب اللہ اور سنت رسول اللہ كا پابند كیا ہے ،اور یہ تیسر ی صدی ہجری كے بعد معرض وجود میں آنے والی انتہائی قبیح بدعت ہے ، صحابہ كرام e، تابعین عظام اور تبع تابعین رحمہم اللہ كی نیك ہستیاں تقلید كی غلاظت سے پاك تھیں ،حالانكہ ان ادوار میں بھی ان پڑھ عوام بھی تھے ، اور ہر شخص مجتہد بھی نہ تھا ۔
اسلامی نقطہ نظر سے اگرتقلید واجب یا ضروری ہوتی تو اللہ رب العزت چوتھی صدی ہجری كے تقلید كو ضروری قرار دیتا ، اور نبی اكرم aاس كار خیر سے امت كے لئے خاموشی اختیار نہ كرتے بلكہ ارشاد فرماتے كہ بعد میں آنے والے لوگ علماء كی تقلید كریں ۔
تو جو لوگ تقلید كو واجب یا فرض سمجھتے ہیں یا تو وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں یا جان بوجھ كر معصوم عوام كو مغالطہ دینے كی قابل مذمت كوشش كررہے ہیں ،اور ان كے دلوں میں نفرت بدعت كی جگہ حب بدعت پیدا ہو گئی ہے ، اور ان كے دل تقلید كی بدعت كے اسیر بن چكے ہیں ،بھلا وہ چیز كیسے فرض یا واجب ہو سكتی ہے جس كا استعمال انسانوں كے لئے قرآن و حدیث نے توہین انسانیت قرار دیا ہے ۔
طالب دعا: ابو اسعد قطب محمد الاثری
https://www.facebook.com/Urdu.IslamHouse/
تقلید كے بہت سارے اسباب و وجوہات اہل علم نے بیان كیا ہے ، اور اس كی ترقی كے ادوار بھی بڑی تفصیل سے ذكر كیا ہے ، اور مذہبی دفاع میں تیاركردہ خودساختہ قواعد كو بھی بیان كیا ہےجس كے سہارے حدیث كو رد كرنے میں انہیں مدد ملتی ہے ،تقلید كے اسباب كے بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی kفرماتے ہیں :
تقلید كی اہم وجہ فقہاء كا آپس میں تزاحم ہے ، اور ان كا باہم جھگڑنا ہے ،چنانچہ جب فتوی دینے میں مقابلہ آرائی ہونے لگی ، اور جب كوئی فتوی دیتا تو اس پر اعتراض كیا جاتا اور اسے رد كردیا جاتا ،اور رجوع كرنے كے بجائے متقدمین میں سے كسی كی صراحت پر اس مسئلہ كی بحث جاكر رك جاتی ،اور وہی اس مسئلہ میں ان كا اصل قرارپاتا اس طرح تقلید پنپتی رہی ۔
دوسری ایك وجہ یہ تھی كہ قاضی لوگوں كو تقلید كا حكم دیتا ، كیونكہ جب اكثر وبیشتر قاضیوں نے ظلم كیا اور امانت داری سے كام نہ لیاتو ان كا وہ حكم عام لوگوں میں مقبول ہوتا جن پر عوام كو شك نہ ہوتا ، اور اس قبیل سے كچھ باتیں پہلے بھی كہی جاچكی ہوتیں ۔
ایك تیسری بڑی وجہ یہ بیان كی جاتی ہے كہ جاہل لوگ سردار بنے ، اور لوگوں نے ایسے بے علم لوگوں سے مسائل دریافت كئے جن كو حدیث اور تخریج حدیث كا علم نہ تھا ، جس كا مشاہدہ آپ متاخریں میں خود كررہے ہیں ،اور غیر مجتہد فقیہ كے نام سے موسوم ہوگئے،اور اسی وقت یہ لوگ تعصب پر جم گئے۔(حجۃ اللہ البالغہ،ج1،ص(153)۔
تقلید كی شرعی حیثیت
مروجہ تقلید اور اس كے گوناگوں نقصانات كے پیش نظر ، اور اہل علم كے عادلانہ و منصفانہ وضاحت كو سامنے ركھتے ہوئے قرآن و حدیث كی روشنی میں یہ بات بلا تردد كہی جاسكتی ہے كہ تقلید بدعت ومطلقاحرام ہے،عالم ہویا امی(ان پڑھ) ہو ،كسی كے لئے بھی تقلید جائز نہیں ، اور اس سے بچنا واجب اور ضروری ہے ،كیونكہ اللہ تعالی نے پوری امت كو كتاب اللہ اور سنت رسول اللہ كا پابند كیا ہے ،اور یہ تیسر ی صدی ہجری كے بعد معرض وجود میں آنے والی انتہائی قبیح بدعت ہے ، صحابہ كرام e، تابعین عظام اور تبع تابعین رحمہم اللہ كی نیك ہستیاں تقلید كی غلاظت سے پاك تھیں ،حالانكہ ان ادوار میں بھی ان پڑھ عوام بھی تھے ، اور ہر شخص مجتہد بھی نہ تھا ۔
اسلامی نقطہ نظر سے اگرتقلید واجب یا ضروری ہوتی تو اللہ رب العزت چوتھی صدی ہجری كے تقلید كو ضروری قرار دیتا ، اور نبی اكرم aاس كار خیر سے امت كے لئے خاموشی اختیار نہ كرتے بلكہ ارشاد فرماتے كہ بعد میں آنے والے لوگ علماء كی تقلید كریں ۔
تو جو لوگ تقلید كو واجب یا فرض سمجھتے ہیں یا تو وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں یا جان بوجھ كر معصوم عوام كو مغالطہ دینے كی قابل مذمت كوشش كررہے ہیں ،اور ان كے دلوں میں نفرت بدعت كی جگہ حب بدعت پیدا ہو گئی ہے ، اور ان كے دل تقلید كی بدعت كے اسیر بن چكے ہیں ،بھلا وہ چیز كیسے فرض یا واجب ہو سكتی ہے جس كا استعمال انسانوں كے لئے قرآن و حدیث نے توہین انسانیت قرار دیا ہے ۔
طالب دعا: ابو اسعد قطب محمد الاثری
https://www.facebook.com/Urdu.IslamHouse/
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق