الأربعاء، 9 نوفمبر 2022

ابن عربی صوفی علامہ علی قاری حنفی کی نظر میں

 

ابن عربی صوفی علامہ علی قاری حنفی کی نظر میں
علامہ علی قاری حنفی نے ابن عربی کے نظریات کا اور جو صوفیاء اس کے کلام کی تاویلیں اور توجیہیں کرتے ہیں
ان کا خوب رد لکھا ہے ، چنانچہ انہوں نے اس سلسلے میں '' الرد علی القائلین بوحدتہ والجود '' نامی ایک کتاب لکھی ہے ـ
کتاب 157 صفحات پر مشتمل ہے اور دارالمامون للتراث ، دمشق کی جانب سے طبع ہو کرمنظر عامم پر آچکی ہے ـ
اس کتاب میں علامہ علی قاری حنفی نے ابن عربی کی کتاب '' فصوص الحکم '' سے چوبیس مقامات سے مختلف نظریات ذکر کیے ہیں ،
پھر ان کی ترید کی ہے اور ان کی تاویل کرنے والوں کی بھی خوب خبر لی ہے ـ
نیز انہوں نے اس وجودی گروہ کی تکفیر پر بہت سے علمائے اسلام کے اقوال نقل کئے ہیں ـ یہ کتاب دراصل ایک سوال کا جواب ہے ـ
ہم مذکورہ کتاب کے چند مقامات ذیل میں نقل کریں گے جن میں علامہ علی قاری حنفی نے پہلے ابن عربی کا باطل عقیدہ نقل کیا
پھر اس پر تبصرہ فرمایا ، ملاحظہ فرمائیں :
1- انہوں نے اس کتاب میں وحدتہ الوجود یا اتحاد کو اہل الحاد کا مذہب قرار دیا ہے (ص: 13،س :8)
2-وجودی فرقے کو اسلام فرقوں سے خارج قرار دیا ہے ـ (ص: 15،س:7)
3- تمام اشیائے کائنات باعتبار باطن اللہ تعالٰی کے ساتھ متحد ہیں ـ یہ نظریہ فلاسفہ کا ہے ـ(ص:16،س:1)
4- (الف) ابن عربی کے نزدیک جو شخص الوہیت کا دعویٰ کرے وہ اپنے دعوے میں سچا ہے ـ (ص :31 ،32)
(ب)، یہ عالم جہاں قدیم ہے ـ (ص : 32 ، س :2) اور یہ باجماع علماء کفر ہے ـ ( ص :49 ، س:7،ص :17، س :9)
(ج) ـ ابن ابی کبشہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل توحید پر دنیا کا امرتنگ کردیا ہے (ص:32،س:2،3)
(د)ـ فرعون دنیا سے طاہر و مطہر ہو کر گیا ہے ـ (ص:87،س :5،6)
علامہ علی قاری نے ابن عربی کے اس نظریے (د) کے رد کے لیے ایک مستقل کتاب لکھی جس کا نام '' فرعون ممن یدی ایمان فرعون '' ہے (ص :32 س:4 مع الحاشیہ ـ ص 37 ، س 6)
(ر) ، صاحب ریاضت کا ناسوت اللہ تعالٰی کے لاوت کے ساتھ مخلوط ہو گیا ہے ـ
یہ بعینہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے ـ انہوں نے بھی یہی عقیدہ کرھا ہے کہ عسی علیہ السلام کا ناسوت اللہ تعالٰی کے لاہوت میں مل گیا ہے ـ (س:7 تا 9 ـ ص 38 ، س اخیر ـ ص:45 ، س :6)
5-ابن عربی کی کتب کا مطالعہ حرام ہے (ص:94 آخری سطر) کیونکہ عقائد مسلمین کے خلاف ہیں یعنی ایمان و تصدیق میں بھی مخالف ہیں ـ (ص:38،س 2)
6- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے محل کی چاندی کی ایک اینٹ کی جگہ ہیں ـ اور ابن عربی کہتے ہیں کہ میں دو اینٹوں کی جگہ ہوں اور وہ بھی باطن میں سونے کی اینٹیں ہیں ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور ابن عربی خاتم الاولیاء (ص :60 ، س:1تا 8-ص:75،76)اور اس میں کفر کی کئی انواع ہیں ـ(ص:76، س:4)
7- ابن عربی کا کفر تو ان سے بھی بڑا ہے جنہوں نے کہا تھا :
لن نومن حتنی نوتی مثل مااوتی رسل اللہ ـ
بلکہ ابن عربی اور ان جیسے منافقین زندیق اور اتحادی ہیں اور یہ لوگ آگے کے نچلے طبقے میں داخل ہونگے ـ (ص:60 آخری سطر)
8- انسان کی ذات اور صفت اللہ کی ذات اور صفت ہے ، یہ صریح کفر ہے ـ (ص "72 ، س :15)
9- خاتم الرسل والانبیاء اور تماما رسل اور اصفیاء وہ خاص علم جو کہ خواص کے ساتھ مختص ہے خاتم الاولیا کے مشکوتہ (سینے ) سے اخذ کرتے ہیں ـ
کیونکہ وہ رسول اور نبی اولیاء بھی ہیں اور یہ صریح کفر ہےـ (ص:138، س:1-ص:78،س:3تا 6)
10- کافر جہنم میں آخرکار جہنم کے عذاب سے اسی لذت اٹھانے لگ جائیں گئے جس طرح کہ اہل جنت جنت کی تعمتوں سے لذت اٹھائیں گئے اور یہ صریح کفر ہے (ص:83 ، س:8)
11- ابن عرب کاقول ہے
سبحان من اوجد الاشیا وھو عینھا ''
پاک ہے وہ اللہ جو اشیاء کا موجد ہے حالانکہ وہ ان اشاء کا عین ہے ''
اور یہ صریح کفر ہے (ص :90 ، س :4)
12: ابن عربی نے نوح علیہ السام پر اعتراض کیا ہے جسے علامہ علی قاری نے کفر ظاہر کیا ہے ـ (ص:107 ، س :4،5)
13: اللہ تعالٰی کی طرف دعوت دینا یہ مدعوین کے ساتھ ایک مکر ہے ـ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت دے کر ان سے مکر کیا تو انہوں نے بھی آگے سے مکر کیا ـ
کہنے لگے : اپنے الٰہوں کو نہ چھوڑو کیونکہ اگر وہ اپنے معبودوں کو چھوڑ دیتے تو حق سے جاہل ہو جاتے ـ
علامہ علی قاری فرماتے ہیں : اس سے زیادہ صریح کفر اور کوئی نہیں ـ (ص:109 ،س2تا 4)
14- نوح علیہ السلام کی قوم کے متعللق قرآن میں آیاہے کہ وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے غرق کر دیے گئے ، پھر آگ میں داخل کردیے گئے تو انہوں نے اللہ کے علاوہ مددگار نہ پائے ـ
(سورہ نوح '25)ابن عربی نے کہا ہے کہ وہ اللہ کی معرفت کے سمندروں میں غرق کیے گئے تھے ـ
ان کی اللہ کے علاوہ کسی نے مدد نہ کی تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی تھی تو وہ ہمیشہ کے لیے اللہ کی ذات میں ہلاک ہو گئے(ص:110،س1تا 3)یہ موقف صریحا قرآن کے خلاف ہے
15- و ہ یعنی اللہ میری #عبادت کرتا ہے اور میں اس کی عبادت کرتا ہوں ـ
یہ ظاہرا کفر ہے جیسا کہ اہل صفا پر محفی نہیں َ (ص :11، س:12)
16- فرعون کا '' انا ربکم الاعلی '' کہنا درست تھا (ص :126)
انہوں نے ابن عربی کے اس کے علاوہ بھی کئی فاسد عقائد و نظریات اس کتاب میں ذکر کیے ہیں پھر فرماتے ہیں :
'' وہ یہ ابن عربی کے کفریات کی انواع پر مشتم کلمات پر وارد ہونے والے اعتراضات میں سے آخری اعتراض ہے
اور سب سے بڑا اس کا کفر یہ ہے ہ وہ عینیت کا دعویٰ کرتا ہے یعنی خالق اور مخلق ایک دوسرے کے عین ہیں ـ (ص :126 ، س:15- ص :127 ، س:7)
ابن عربی کے متعلق علامہ علی قاری نے لکھا ہے کہ
وہ خاتم الاولیاء نہیں بلکہ وہ خاتم الاولیاء من الشیاطین الاغبیاء ہے
کیونکہ اس کے مذہب کا نقصان دجال کے نقصان سے بھی زیادہ ہے اور اس کی کتابیں عیسائیوں کی کتابوں سے بھی زیادہ بری ہیں ـ (ص:128 ، آخری سطو)
ابن عربی کی کتاب '' فصوص الحکم '' اور فتوحات مکیہ '' میں یہ کفریات اور بکواسات ہیں (ص:129 ، س :7،8)
بلاشک طائفہ وجودیہ کفر زیادہ ظاہر ہے اور اسلامی فرقوں پر ان کا نقصان بہت زیادہ ہے ـ(ص:133 ، س:11،12)
کسی مسلمان کے لیے حلال ہیں کہ وہ کتاب و سنت کو ترک کر کے اس طائفہ کے کلام کی طرف مائل ہو ـ (ص:134 ، س :11،12)
یہ عقیدہ رکھنا درست نہیں کہ ابن عربی اولیاء میں سہے ہے ـ اس لیے کہ اس سے اس طرح کے (کفریہ کلمات ) صادر ہوئے ہیں ـ
(ص:153 ـ س:3)
حافظ ابن حجر عسقلانی صاحب فتح الباری اور ابن عربی کے کسی عقیدت مند اور محب کے درمیان رمضان المبارک کے مہینے میں مباہلہ ہوا ، اس نے کہا : ائے اللہ ! اگر ابن عربی گمراہ ہے تو مجھ پر اپنی لعنت کردے ـ
حافظ ابن حجر نے کہا : ائے اللہ ! اگر ابن عربی ہدایت پر تھا تو تو مجھ پر اپنی لعنت کردے (ص : 154)
اس کے حاشیے میں ہے کہ ابن عربی کا معتقد ذوالقعدہ 490 ھ میں فوت ہو گیا تھا ـ یعنی مبالہ کے دو ماہ بعد ( دیکھیے تنبیہ الغبی الی تکفیر ابن عربی للبرھان البقاعی )
ملا علی قاری کہتے ہیں :
'' جان رکھو ! جو ابن عربی کے عقیدے کے صحیح ہونے کا قائل و معتقد ہے وہ بالاجماع کافر ہے ، اس میں کوئی نزاع نہیں ـ ہاں ، اس میں نزاع ہے کہ اس کے کلام کی تاویل کر لی جائے ـ''
اور تاویلات کا جواب خود علامہ علی قاری نے دیا ہے ـ
علامہ ابن مقری نے کہا ہے :
'' جو شخص یہود و نصاریٰ اور ابن عربی کے کفر میں شک کرے تو وہ کافر ہے ـ '(ص :154،155،س: 1 تا 5)
ابن عربی کے عقیدے کے حاملین کو سلام کہنا جائز نہیں ـ نہ ہی ان کے سلام کا جواب دینا جائز ہے ـ
بلکہ انہیں '' وعلیکم'' کہ کر جواب دینا درست ہے ، کیونکہ یہ یہود و نصاریٰ سے بھی بدتر ہیں ـ
ان کا حکم مرتدوں والا ہے ان می کوئی چھینک کے وقت الحمد للہ کہے تو اسے یرحمک اللہ بھی نہیں کہ سکتے ـ
ان میں سے کسی کا جنازہ بھی نہیں پڑھ سکتے ـ اگر وہ انہی اعتقادات پر رہیں تو ان کی سابقہ عبادات باطل ہیں ـ
حکمران پر ضروری ہے کہ اس طرح کے فاسد نظریات رکھنے والے لوگوں کو جلا دیں ،
کیونکہ یہ پلید تر ہیں بلکہ یہ ان لوگوں سے بھی زیادہ نجس ہیں جو علی رضی اللہ عنہ کو اللہ کہتے ہیں ـ
علی رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کو جلا دیا تھا ، جو رب کہتے تھے ـ
اور ان کی کتب کو جلانا بھی واجب ہے ـ اور ہر مسلمان پر ، بالخصوص علماء پر فرض ہے کہ
ان کے فاسد عقائد لوگوں پر واضح کریں تاکہ لوگ فتنے میں مبتلا نہ ہوں ـ
ہم اللہ تعالٰی سے حسن خاتمہ کا سوال کرتے ہیں ـ (ص :156)
============
ابن عربی کے عقیدے کے حاملین کو سلام کہنا جائز نہیں ـ نہ ہی ان کے سلام کا جواب دینا جائز ہے ـ
بلکہ انہیں '' وعلیکم'' کہ کر جواب دینا درست ہے ، کیونکہ یہ یہود و نصاریٰ سے بھی بدتر ہیں ـ
ان کا حکم مرتدوں والا ہے ان می کوئی چھینک کے وقت الحمد للہ کہے تو اسے یرحمک اللہ بھی نہیں کہ سکتے ـ
ان میں سے کسی کا جنازہ بھی نہیں پڑھ سکتے ـ
اگر وہ انہی اعتقادات پر رہیں تو ان کی سابقہ عبادات باطل ہیں ـ حکمران پر ضروری ہے کہ اس طرح کے فاسد نظریات رکھنے والے لوگوں کو جلا دیں ،
کیونکہ یہ پلید تر ہیں بلکہ یہ ان لوگوں سے بھی زیادہ نجس ہیں جو علی رضی اللہ عنہ کو اللہ کہتے ہیں ـ علی رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کو جلا دیا تھا ، جو رب کہتے تھے ـ
اور ان کی کتب کو جلانا بھی واجب ہے ـ اور ہر مسلمان پر ، بالخصوص علماء پر
فرض ہے کہ ان کے فاسد عقائد لوگوں پر واضح کریں تاکہ لوگ فتنے میں مبتلا نہ ہوں ـ ہم اللہ تعالٰی سے حسن خاتمہ کا سوال کرتے ہیں ـ (ص :156)
=============
سبحان اللہ ۔ بڑی سخت جرح کی ہے ۔
حنفیوں اور دیوبندیوں اور جو ان کے ہم عقیدہ ہیں‌ سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو محی الدین ابن عربی کو شیخ اکبر کہتے ہیں‌۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق